Riaz Us Saliheen – Urdu Tarjamah

 

حدیث نمبر: 12 نیک اعمال کا وسیلہ

عَنْ اَبِیْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللہُ عَنْہم اقَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ:اِنْطَلَقَ ثَلٰثَۃُ نَفَرٍمِمَّنْ کَانَ قَبْلَکُمْ حَتّٰی اٰوَاھُمُ الْمَبِیْتُ اِلٰی غَارٍ فَدَخَلُوْہُ، فَانْحَدَرَتْ صَخْرَۃٌ مِنَ الْجَبَلِ فَسَدَّتْ عَلَیْہم الْغَارَ، فَقَالُوْااِنَّہُ لَایُنْجِیْکُمْ مِنْ ھٰذِہِ الصَّخْرَۃِ اِلَّا اَنْ تَدْ عُوْااللہَ بِصَالِحِ اَعْمَالِکُمْ۔قَالَ رَجُلٌ مِنْھُمْ :اللہم کَانَ لِیْ اَبَوَانِ شَیْخَانِ کَبِیرَانِ وَکُنْتُ لَا اَغْبِقُ اَھْلًا وَلَا مَالًا فَنَأَی بِیْ طَلَبُ الشَّجَرِ یَوْمًا فَلَمْ اُرِحْ عَلَیْہم ا حَتّٰی نَامَا فَحَلَبْتُ لَھُمَا غَبُوْقَھُمَا فَوَجَدْتُھُمَانَائِمَیْن، فَکَرِھْتُ اَنْ اُوْقِظَھُمَاوَاَنْ اَغْبِقَ قَبْلَھُمَااَھْلًا اَوْ مَالًا، فَلَبِثْتُ وَالْقَدْحُ عَلٰی یَدِیْ اَنْتَظِرُ اِسْتِیْقَاظَھُمَاحَتّٰی بَرَقَ الْفَجْرُ، وَالصِّبْیَۃُ یَتَضَاغَوْنَ عِنْدَ قَدَمِیَّ، فَاسْتَیْقَظَا فَشَرِبَاغَبُوْقَھُمَا،اللھُمَّ!اِنْ کُنْتُ فَعَلْتُ ذٰلِکَ ابْتِغَائَ وَجْھِکَ فَفَرِّجْ عَنَّا مَانَحْنُ فِیْہِ مِنْ ھٰذِہِ الصَّخْرَۃِ۔‘‘ فَانْفَرَجَتْ شَیْئًا لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ الْخُرُوْجَ مِنْہُ،قَالَ الْاٰخَرُ:اللہم إِنَّہُ کَانَتْ لِیْ اِبَْنَۃُ عَمٍّ کَانَتْ اَحَبَّ النَّاسِ اِلَیَّ وَفِیْ رِوَایَۃٍ ’’کُنْتُ اُحِبُّھَا کَأَشَدِّ مَا یُحِبُّ الرِّجَالُ النساء ‘‘ فَاَردْتُھَاعَلٰی نَفْسِھَا فَامْتَنَعَتْ مِنِّیْ حَتّٰی اَلَمَّتْ بِھَا سَنَۃٌ مِنَ السِّنِیْنَ، فَجَائَتْنِیْ فَاَعْطَیْتُھَاعِشْرِیْنَ وَمِائَۃَ دِیْنَارٍ عَلٰی اَنْ تُخَلِّیَ بَیْنِیْ وَبَیْنَ نَفْسِھَا فَفَعَلَتْ حَتّٰی اِذَا قَدَرْتُ عَلَیْھَا، وَفِیْ رِوَایَۃٍ ’’فَلَمَّا قَعَدْتُّ بَیْنَ رِجْلَیْھَا‘‘ قَالَتْ اِتَّقِ اللہَ وَلَا تَفُضَّ الْخَاتَمَ اِلَّا بِحَقِّہِ فَانْصَرَفْتُ عَنْھَا وَھِیَ اَحَبُّ النَّاسِ اِلَیَّ وَتَرَکْتُ الذَّھَبَ الَّذِیْ اَعْطَیْتُھَا،اللھُمَّ! اِنْ کُنْتُ فَعَلْتُ ذٰلِکَ ابْتِغَائَ وَجْھِکَ فَافْرُجْ عَنَّامَانَحْنُ فِیْہِ،فَانْفَرَجَتِ الصَّخْرَۃُغَیْرَ اَنَّھُمْ لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ الْخُرُوْجَ مِنْھَا۔وَقَالَ الثَّالِثُ:’’اللہم اِسْتَأْجَرْتُ اُجَرَائَ وَاَعْطَیْتُھُمْ اَجْرَھُمْ غَیْرَ رَجُلٍ وَاحِدٍ تَرَکَ الَّذِیْ لَہٗ وَذَھَبَ فَثَمَّرْتُ اَجْرَہُ حَتّٰی کَثُرَتْ مِنْہُ الْاَمْوَالُ،فَجَائَ نِیْ بَعْدَ حِیْنَ فَقَالَ یَا عَبْدَ اللہِ اَدِّ اِلَیَّ اَجْرِیْ، فَقُلْتُ:کُلُّ مَاتَرَی مِنْ اَجْرِکَ مِنَ الْاِبِلِ وَالْبَقَرِ وَالْغَنَمِ وَالرَّقِیْقِ، فَقَالَ:یَاعَبْدَاللہِ! لَا تَسْتَھْزِیئْ بِیْ! فَقُلْتُ:لَا اَسْتَھْزِیئُ بِکَ، فَاَخَذَہُ کُلَّہُ فَاسْتَاقَہُ فَلَمْ یَتْرُکْ مِنْہُ شَیْئََا،اللھُمَّ!اِنْ کُنْتُ فَعَلْتُ ذٰلِکَ ابْتِغَائَ وَجْھِکَ فَافْرُجْ عَنَّا مَا نَحْنُ فِیْہِ‘‘ فَانْفَرَجَتِ الصَّخْرَۃُ فَخَرَجُوْا یَمْشُوْنَ۔(مُتَّفَقٌ عَلَیْہِ) (بخا ری، کتاب الانبیائ، باب حدیث الغار، ۲/۴۶۴، حدیث:۳۴۶۵)

 

ترجمہ: حضرتِ سَیِّدُنا اَبو عَبْدِ الرَّحْمٰن عَبْدُاللہ بن عمر بن خَطَّاب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہم فرماتے ہیں :’’ میں نے حضورِ پاک، صاحبِ لَولاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکو یہ فرماتے ہوئے سنا :’’ گزشتہ زمانے میں تین شخص کہیں جارہے تھے جب رات ہوئی تو پناہ لینے کے لئے ایک غار میں داخل ہوئے اچانک پہاڑ سے ایک چٹان گری جس نے غار کا منہ بند کردیا۔ یہ دیکھ کر انہوں نے کہا: اس مصیبت سے نجات کا ایک ہی طریقہ ہے کہ ہم اپنے اپنے نیک اعمال کا وسیلہ اللہعَزَّوجَلَّ کی بارگاہ میں پیش کر کے دعا کریں۔ چنانچہ، ان میں سے ایک نے کہا :یااللہ عَزَّوَجَلَّ ! میرے ماں باپ بہت بوڑھے ہو گئے تھے میں ان سے پہلے نہ تو اپنے اہل و عیال کو پینے کے لئے دودھ دیا کرتا تھا نہ ہی اپنے خادموں کو ، ایک دن میں درختوں کی تلاش میں بہت دور نکل گیا جب واپس آیا تو میرے والدین سو چکے تھے میں دودھ لے کر ان کے پاس آیا تو انہیں سویا ہوا پایا میں نے نہ تو انہیں جگانا مناسب سمجھا نہ ہی ان سے پہلے اہل وعیال میں سے کسی کو دینا پسند کیا ،بچے بھوک کی وجہ سے میرے پاؤں میں بِلبِلاتے رہے لیکن میں دودھ کا پیالہ لئے اپنے والدین کے پاس کھڑا رہا، جب صبح ہوئی تو میں نے انہیں دودھ پیش کیا ۔ یااللہ عَزَّوَجَلّ!َ اگر میں نے یہ عمل صرف تیری رضا کے لئے کیا تھا تو ہمیں اس مصیبت سے نجات عطا فرما! اس کی دعا سے چٹان کچھ سِرَک گئی ، لیکن ابھی اتنی جگہ نہ بنی تھی کہ وہ نکل سکتے ، پھردوسرے نے کہا: یااللہ عَزَّوَجَلَّ! مجھے میرے چچا کی بیٹی لوگوں میں سب سے زیادہ محبوب تھی ایک روایت میں ہے کہ میں اس سے ایسی شدید محبت کرتا تھا جیسے مرد عورتوں سے کرتے ہیں ،میں نے اس سے برائی کا ارادہ کیا تو اس نے انکار کر دیا ، پھر وہ قحط میں مبتلا ہوئی تو میرے پاس آئی میں نے اس شرط پر اسے 120 دینا ر دیئے کہ وہ میری خواہش پوری کردے ، وہ مجبور تھی تیار ہوگئی ،جب میں اس کے ساتھ تنہائی میں گیا اور اس پر قابو پالیا (ایک روایت میں ہے کہ جب میں اس کی دونوں رانوں کے بیچ بیٹھ گیا) تو اس نے کہا : اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈر اور ناحق مُہر کو نہ توڑ (یعنی اس برے کام سے باز آجا) یہ سن کر میں نے اسے چھوڑ دیا اورمیں بدکاری سے باز رہا، حالانکہ مجھے اس سے شدید محبت تھی، پھر میں نے ا س سے وہ دینا ر بھی واپس نہ لئے ،یااللہ عَزَّوَجَلَّ! اگر میں نے یہ عمل صرف تیری رضا کے لئے کیا تھا تو ہمیں اس مصیبت سے نجات عطا فر ما !چٹان کچھ اور سَرَک گئی لیکن اب بھی وہ باہر نہ نکل سکتے تھے۔ تیسرے نے کہا :یااللہ عَزَّوَجَلَّّ ! میں نے کچھ مزدوروں سے کام کروایا اور سب کی مزدوری دے دی لیکن ان میں سے ایک مزدور اُجرت چھوڑ کر چلا گیا، میں نے وہ تجارت میں لگا دی تو اس کی رقم بڑھتی رہی کچھ عرصہ بعد وہ آیااور کہا : اے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے بندے !میری اجرت مجھے دے دے۔ میں نے کہا :یہ اونٹ، گائے، بکری ا ور غلام جو تم دیکھ رہے ہو یہ سب تمہارے ہیں۔ اس نے کہا: اے اللہ عَزَّوَجَلَّّ کے بندے! مجھ سے مذاق نہ کر۔ میں نے کہا : میں مذاق نہیں کر رہا یہ سب کچھ تمہارا ہی ہے۔ چنانچہ، وہ سب مال لے کر چلا گیا اور کچھ بھی نہ چھوڑا۔ اے اللہ عَزَّوَجَلَّّ !اگر میرا یہ عمل تیری رضا کے لئے تھا تو ہمیں اس مصیبت سے نجات عطا فرما!پس چٹان ہٹ گئی اوروہ تینوں باہر نکل کر اپنی منزل کی طرف چل دئیے ۔

 

 

حدیث نمبر:3 1 اِستِغفار کی اہم یت

عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ:وَاللہِ اِنِّیْ لَاَسْتَغْفِرُاللہَ وَاَتُوْبُ اِلَیْہِ فِیْ الْیَوْمِ اَکْثَرَ مِنْ سَبْعِیْنَ مَرَّۃً۔(بخاری،کتاب الدعوات، باب استغفار النبی فی الیوم واللیلۃ، ۴/۱۹۰، حدیث:۶۳۰۷)

ترجمہ: حضرتِ سَیِّدُنا ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : میں نے نبیِّ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اللہعَزَّوَجَلَّکی قَسَم !میں ایک دن میں 70مرتبہ سے بھی زیادہ اللہعَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں توبہ وا ِستِغفَار کرتا ہوں۔

حدیث نمبر:14 عَنِ الْاَغَرِّ بْنِ یَسَارِ الْمُزَنِیِّ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ:قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:یَااَیُّہَا النَّاسُ: تُوْبُوْا اِلَی اللہِ وَاسْتَغْفِرُوْہُ، فَاِنِّیْ اَتُوْبُ فِی الْیَوْمِ ِالَیْہِ مِئَۃَ مَرَّۃٍ (رَوَاہُ مُسْلِمٌ) (مسلم،کتاب الذکر والدعا والتوبۃ والاستغفار، باب استحباب الاستغفار والاستکثار منہ، ص۱۴۴۹، حدیث:۲۷۰۳)

ترجمہ: حضرتِ سَیِّدُنا اَغَربسِنْ یَسَارمُزَنِی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہنَبِیِّّ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے فرمایا : اے لوگوــ!اللہ سے توبہ کرو اور اس سے بخشش چاہو بے شک میں روزانہ100 مرتبہ اللہ عَزَّوَجَلَّکے حضور توبہ کرتا ہوں۔

 

حدیث نمبر:15 توبہ کرنے والے پررضائے اِلٰہی کی برسات

عَنْ اَبِیْ حَمْزَۃَ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ الْاَنْصَارِیِّ خَادِمِ رَسُوْلِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَرَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:’’لَلّٰہُ اَفْرَحُ بِتَوْبَۃِ عَبْدِہٖ مِنْ اَحَدِکُمْ سَقَطَ عَلٰی بَعِیْرِہٖ وَقَدْ اَضَلَّہٗ فِیْ اَرْضٍ فَلاَۃٍ(بخاری، کتاب الدعوات، باب التوبۃ، ۴/۱۹۱، حدیث: ۶۳۰۹)وَفِیْ رِوَایَۃٍ لِمُسْلم لَلّٰہُ اَشَدُّ فَرَحًا بِتَوْبَۃِ عَبْدِہٖ حِیْنَ یَتُوْبُ اِلَیْہِ مِنْ اَحَدِکُمْ کَانَ عَلٰی رَاحِلَتِہٖ بِاَرْضٍ فَلاۃٍ ، فَانْفَلَتَتْ مِنْہُ وَعَلَیْہَا طَعَامُہٗ وَشَرَابُہُ فَاَیِسَ مِنْہَا، فَاَتٰی شَجَرَۃً فَاضْطَجَعَ فِیْ ظِلِّہَا وَقَدْ اَیِسَ مِنْ رَاحِلَتِہٖ ، فَبَیْنَمَا ہُوَکَذَالِکَ اِذْ ہُوَبِہَا قائِمَۃً عِنْدَہٗ ، فَاَخَذَ بِخِطَامِہَا ، ثُمَّ قَالَ مِنْ شِدَّۃِ الْفَرَحِ’’اللہم اَنْتَ عَبْدِیْ وَاَنَا رَبُّکَ‘‘اَخْطَاَ مِنْ شِدَّۃِ الْفَرَحِ(مسلم، کتاب التوبۃ،باب فی الحض علی التوبۃ والفرح بھا، ص۱۴۶۹، حدیث:۲۷۴۷)

ترجمہ: خادِمِ رسول حضرتِ سَیِّدُنااَنس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہینَبِیِّ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشاد فرمایا:’’ اللہ عَزَّوَجَلَّ اپنے بندے کی توبہ پر اس شخص سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے جسے اُس کا اُونٹ چَٹْیَل میدان میں گُم ہو نے کے بعد اچانک مل جائے ۔‘‘(مسلم کی روایت میں یہ الفاظ ہیں )’’ جب کوئی بندہ توبہ کرتا ہے تو اللہعَزَّوَجَلَّکو اس سے بھی زیادہ خوشی ہوتی ہے کہ جیسے تم میں سے کوئی شخص کسی جنگل میں اپنی سُواری پر جائے اور سُواری گم ہو جائے ، اور سُواری پر اُس کا کھانا اور پانی ہو اور وہ(سُواری کے ملنے سے) مایوس ہوجائے اور ایک درخت کے سائے میں لیٹ جائے ،پھر اچانک وہ سُواری اس کے پاس کھڑی ہوئی ہو، وہ اس کی مَہار (یعنی رسی ) پکڑلے ،پھر خوشی کی شدت میں یہ کہے :’’اے اللہ عَزَّوَجَلَّ! تو میرا بندہ ہے اور میں تیرا ربّ ہوں۔‘‘ شدتِ خوشی میں اس سے الفاظ اُلٹ ہو جائیں۔

 

 

 

 

حدیث نمبر:16                                                                                                دستِ رحمت

                        عَنْ اَبِیْ مُوْسٰی عَبْدِ اللہِ بْنِ قَیْسٍ اَلْاَ شْعَرِیِّ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسلَّم،قَالَ:’’اِنَّ اللہَ تَعَالٰی یَبْسُطُ یَدَہُ بِاللَّیْلِ لِیَتُوْبَ مُسِیْئُ النَّہَارِ،ویَبْسُطُ یَدَہُ بِالنَّہَارِ لِیَتُوْبَ مُسِیْئُ اللَّیْلِ،حَتّٰی تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَغْرِبِہَا۔‘‘ رَوَاہُ مُسْلِمٌ (مسلم ،کتاب التوبۃ ، باب قبول التوبۃ من الذنوب …الخ، ص۱۴۷۵، حدیث:۲۷۵۹)

                                                ترجمہ: حضرتِ سَیِّدُنا اَبو مُوسٰی اَشْعَرِی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ رَسُوْلُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:’’ اللہ عَزَّوَجَلَّرات بھر اپنا دستِ رَحمت پھیلائے رکھتاہے تاکہ دن کو گناہ کرنے والا توبہ کرے اور دن بھر اپنا دستِ رَحمت پھیلائے رکھتاہے تاکہ رات کو گناہ کرنے والا توبہ کرے ،یہ کرم نوازی اس وقت تک ہو تی رہے گی جب تک کے سورج مغرب سے طُلوع نہ ہو۔‘‘

اللہ عَزَّوَجَلَّ جسم سے پاک ہے

 

حدیث نمبر:17 سورج کے مغرب سے طُلُوع ہونے سے قبل ہر ایک کی توبہ قبول ہے

عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ، قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ تَابَ قَبْلَ اَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَغْرِبِہَا تَابَ اللہُ عَلَیْہ۔ (مسلم، کتاب الذکر والدعا …الخ ، باب استحباب الاستغفار والاستکثار منہ، ص۱۴۴۹، حدیث:۲۷۰۳)

ترجمہ: حضرتِ سَیِّدُنا ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ رَسُوْلُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:’’جو شخص مغرب سے سورج کے طُلوع ہونے سے پہلے توبہ کر لے گا اللہ عَزَّوَجَلَّ اُس شخص کی توبہ قُبول کرے گا۔‘‘

 

حدیث نمبر: 18 مرتے وقت توبہ

عَنْ اَبِیْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللہُ عَنْہم ا عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم قَالَ:’’اِنَّ اللہَعَزَّوَجَلَّ یَقْبَلُ تَوبَۃَ الْعَبْدِ مَا لَمْ یُغَرْغِرْ۔‘‘رَوَاہُ التِّرْمِذِی، وَقَالَ حَدِیْثٌ حَسَنٌ (ترمذی، کتاب الدعوات، باب فی فضل التوبۃ…الخ، ۵/۳۱۷، حدیث:۳۵۴۸)

ترجمہ :حضرتِ سَیِّدُنا ابو عبد الرحمن عَبْدُاللہ بن عمر خطاب رَضِیَ اللہُ عَنْہم ا سے مروی ہے کہ رسول ِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:’’اللہ عَزَّوَجَلَّ بندے کی توبہ قُبول کرتا ہے غَرْغَرہ سے پہلے تک ۔ ‘‘

 

 

حدیث نمبر19 طا لبِ علم کا مرتبہ ومقام

عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَیْشٍ،قَال اَتَیْتُ صَفْوَانَ بْنَ عَسَّالٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ اَسْاَلُہُ عَنِ الْمَسْحِ عَلَی الْخُفَّیْنِ، فَقالَ مَا جَائَ بِکَ یَا زِرُّ؟ فقُلْتُ اِبْتِغَائَ الْعِلْمِ، فَقَالَ:اِنَّ الْمَلائِکَۃَ تَضَعُ اَجْنِحَتَہَا لِطَالِبِ الْعِلْمِ رِضیً بِمَا یَطْلُبُ فَقُلْتُ:اِنَّہُ قَدْ حَکَّ فِی صَدْرِیْ اَلْمَسْحُ عَلَی الْخُفَّیْنِ بَعْدَ الْغَائِطِ وَالْبَوْلِ،وکُنْتَ اِمْرَئً ا مِنْ اَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمْ فَجِئْتُ اَسْاَلُکَ: ہَلْ سَمِعْتَہُ یَذْکُرُ فِی ذٰلِکَ شَیْئاً؟ قَالَ: نَعَمْ، کَانَ یَاْمُرُنَا اِذَا کُنَّا سَفْرًا اَوْ مُسَافِرِیْنَ اَنْ لَا نَنْزِعَ خِفَافَنَا ثَلاثَۃَ اَیَّامٍ وَلَیَالِیَہُنَّ اِلاَّ مِنْ جَنَابَۃٍ، لٰکِنْ مِنْ غَائِطٍ وَبَوْلٍ وَنَوْمٍ۔ فَقُلْتُ: ہَلْ سَمِعْتَہُ یَذْکُرُ فِی الْہَوَی شَیْئاً؟ قَالَ: نَعَمْ، کُنَّا مَعَ رَسُوْلِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم فِیْ سَفَرٍ، فَبَیْنَا نَحْنُ عِنْدَہُ اِذْ نَادَاہُ اَعْرَابِیٌّ بِصَوْتٍ لَہٗ جَہْوَرِیٍّ یَا مُحَمَّدُ! فَاَجَابَہُ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نَحْوًا مِنْ صَوْتِہٖ: ’’ہَاؤُمُ‘‘ فَقُلْتُ لَہُ: وَیْحَکَ اُغْضُضْ مِنْ صَوْتِکَ فَاِنَّکَ عِنْدَ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم، وَقَدْ نُہِیْتَ عَنْ ہَذَا! فَقَالَ: وَاللہِ لَا اَغْضُضُ، قَالَ الْاَعْرَابِیُّ: اَلْمَرْئُ یُحِبُّ الْقَوْمَ وَلَمَّا یَلْحَقْ بِہم ؟ قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم’’اَلْمَرْئُ مَعَ مَنْ اَحَبَّ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ‘‘ فَمَا زَالَ یُحَدِّثُنَا حَتّٰی ذَکَرَ بَاباً مِنَ الْمَغْرِبِ مَسِیْرَۃُ عَرْضِہٖ اَوْ یَسِیْرُ الرَّاکِبُ فِیْ عَرْضِہٖ اَرْبَعِیْنَ اَوْ سَبْعِیْنَ عَاماً۔قَالَ سُفْیانُ اَحَدُ الرُّوَاۃِ:

قِبَلَ الشَّامِ خَلَقَہُ اللہُ تَعَالٰی یَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضَ مَفْتُوْحاً لِلتَّوْبَۃِ لَا یُغْلَقُ حَتّٰی تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْہُ۔رواہ الترمذی وغَیرُہ۔ (ترمذی، کتاب الدعوات، باب فی فضل التوبۃ…الخ، ۵/۳۱۶، حدیث:۳۵۴۶)

حضرتِ سَیِّدُنا زِرّ بِنْ حُبَیْشرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ میں حضرتِ سَیِّدُناصَفوَان بِن عَسَّال رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے پاس موزو ں پر مَسح کا حکم پوچھنے کے لئے حاضر ہوا تو انہوں نے پوچھا :اے زِر کیسے آنا ہوا؟ میں نے عرض کی :علم کی تلاش میں ، فرمایا ،فرشتے طالبِ علم کے مقصد پر رِضا مندی کی وجہ سے اُس کے لئے اپنے پَر بچھاتے ہیں۔میں نے عرض کی، پاخانہ اورپیشاب کرنے کے بعد موزوں پر مَسح کرنے کے بارے میں میرے دل میں شُبہ پڑگیا ہے، آپ صحابیِ رسول ہیں ،اِس لئے میں آپ سے معلوم کرنے آیا ہوں کہ کیا آپ نے حضورِپاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے اس کے مُتَعَلِّق کچھ سنا ہے؟ فرمایا:’’ہا ں !نبیِّ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہمیں فرمایا کرتے تھے کہ’’جب ہم حالتِ سفر میں ہوں تو جَنابَت کے علاوہ تین دن رات تک پیشاب،پاخانے یا نیند کی وجہ سے موزے نہ اتاریں۔‘‘میں نے پوچھا: کیا آپ نے مَحَبَّت کے بارے میں بھی نبیِّ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمسے کچھ سنا ہے؟ فرمایا:ہاں !ہم ایک سفر میں حضور ِاکرم، نورِ مُجِسَّم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ہم راہ تھے ،ایک اَعرابی نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کوبلند آواز سے پکارا،یَامُحَمَّد(صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم)! تورسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے اتنی ہی بلند آواز سے جواب دیا کہ ـ’’میں یہاں ہوں ‘‘میں نے اُس اَعرابی سے کہا:تجھ پر افسوس ہے!اپنی آواز پَست کر، کیونکہ تو نبیِّ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے پاس ہے اور تجھے اِس (بُلند آواز)سے منع کیا جاچکاہے۔اُس نے کہا: خدا کی قسم!میں اپنی آواز پَست نہیں کروں گا۔پھراس اَعرابی نے نبیِّ پاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے عرض کی: یَا رَسُوْلَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم!ایک آدَمی کسی قوم سے مَحَبَّت کرتا ہے اور ابھی تک وہ اس سے ملا نہیں ؟اَعرابی کی یہ بات سن کر حضورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:’’ قِیامت کے دن ہر شخص اپنے محبوب کے ساتھ ہوگا۔‘‘ حضرتِ زِرّ بِنْ حُبَیْش رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ حضرتِ سَیِّدُناصفوان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ہم سے حدیث بیان کرتے رہے یہاں تک کہ انہوں نے مغرب کی جانب ایک دروازے کا ذکر فرمایاجس کی چوڑائی 40یا 70سال کی مَسافَت ہے یا فرمایا: اِس کی چوڑائی میں گُھڑ سوار چالیس یا ستر سال کی راہ چلتا رہے۔حضرتِ سَیِّدُناسفیان َرضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ وہ دروازہ ملک شام کی طرف ہے اسے اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اُس دن پیداکیاجس دن آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا وہ سورج کے مغرب کی طرف طلوع ہونے تک توبہ کے لئے کھلا ہواہے۔

 

Sharing Is Caring:

Leave a Comment