ذرے جھڑ کر تیری پیزاروں کے
ذرے جھڑ کر تیری پیزاروں کے
تاج سر بنتے ہیں سیاروں کے
ہم سے چوروں پہ جو فرمائیں کرم
خلعت زر بنیں پشتاروں کے
میرے آقا کو جو در ہے جس پر
ماتھے گھس جاتے ہیں سرداروں کے
میرے عیسیٰ تیرے صدقے جاؤں
طور بے طور ہیں بیماروں کے
مجرمو چشم تبسم رکھو
پھول بن جاتے ہیں انگاروں کے
تیرے ابرو کے تصدق پیارے
بند کرے ہیں گرفتاروں کے
جان و دل تیرے قدم پر وارے
کیا نصیبے ہیں ترے یار وں کے
صدق و عدل کرم و ہمت میں
چار سو شہرے ہیں ان چاروں کے
بہر تسلیم علی میداں میں
سر جھکے رہتے ہیں تلواروں کے
کیسے آقاؤں کا بندہ ہوں رضا
بول بالے میں سرکاروں کے