صبح طیبہ میں ہوئی بٹتا ہے باڑا نور کا
قصیدہ نور
صبح طیبہ میں ہوئی بٹتا ہے باڑا نور کا
صدقہ لینے نور کا آیا ہے تارا نورکا
باغ طیبہ میں سہانا پھول پھولا نور کا
مست بوہیں بلبلیں پڑھتی ہیں -کلمہ نور کا
بارھویں کے چاند کا مجرا ہے سجدہ نور کا
بارہ برجوں سے جھکا اک اک ستارا نور کا
ان کے قصر قدر سے خلد ایک کمرہ نور کا
سدرہ پائیں باغ میں ننھا سے پودا نور کا
عرش بھی فردوس بھی اس شاہ والا نور کا
یہ مثمن برج وہ مشکوئے اعلیٰ نور کا
آئی بدعت چھائی ظلمت رنگ بدلا نور کا
ماہ سنت مہر طلعت لے لے بدلا نور کا
تیرے ہی ماتھے رہا اے جان سہرا نور کا
بخت جاگا نور کا چمکا ستارا نور کا
میں گدا تو بادشاہ بھردے پیالہ نور کا
نور دن دونا تیرا دے ڈال صدقہ نور کا
تیرے ہی جانب ہے پانچوں وقت سجدہ نور کا
رخ ہے قبلہ نور کا ابرو ہے کعبہ نور کا
پشت پر ڈھلکا سر انور سے شملہ نور کا
دیکھیں موسیٰ طور سے اترا صحیفہ نور کا
تاج والے دیکھ کر تیرا عمامہ نور کا
سر جھکاتے ہیں الٰہی بول بالا نور کا
بینئ پر نور رخشاں ہے بکہ نور کا
ہے لواء الحمد پراڑتا پھریرا نور کا
مصحف عارض یہ ہے خط شفیعہ نور کا
لوسیہ کارو مبارک ہو قبالہ نور کا
آب زر بنتا ہے عارض پر پسینہ نور کا
مصحف اعجاز پر چڑھتا ہے سونا نور کا
پیچ کرتا ہے فدا ہونے کو لمعہ نور کا
گرد سر پھرنے کو بنتا ہے عمامہ نور کا
ہیبت عارض سے تھر آتا ہے شعلہ نور کا
کفش پاپر گر کے بن جاتا ہے گپھا نور کا
شمع دل مشکوٰة تن سینہ زجاجہ نور کا
تیری صورت کے لئے آیا ہے سورہ نور کا
میل سے کس درجہ ستھرا ہے وہ پتلا نور کا
ہے گلے میں آج تک کوراہی کرتا نور کا
تیرے آگے خاک پر جھکتا ہے ماتھا نور کا
نور نے پایا ترے سجدے سے سیما نور کا
تو ہے سایہ نور کا ہر عضو ٹکڑا نور کا
سایہ کا سایہ نہ ہوتا ہے نہ سایہ نور کا
کیا بنا نام خدا اسریٰ کا دولہا نور کا
سر پہ سہرا نور کا بر میں شہانہ نور کا
بزم وحدت میں مزا ہوگا دو بالا نور کا
ملنے شمع طور سے جاتا ہے اکہ نور کا
وصف رخ میں گاتی ہیں حوریں ترانہ نور کا
قدرتی بینوں میں کیا بجتا ہے لہرا نور کا
یہ کتاب کن میں آیا طرفہ آیہ نور کا
غیر قائل کچھ نہ سمجھا کوئی معنی نور کا
دیکھنے والوں نے کچھ دیکھا نہ بھالا نور کا
من رای کیسا ؟ یہ آئینہ دکھایا نور کا
صبح کردی کفر کی سچا تھا مژدہ نور کا
شام ہی سے تھا شب تیرہ کو دھڑکا نور کا
پڑتی ہے نوری بھرن امڈا ہے دریا نور کا
سر جھکا اے کشت نظر آتا ہے اہلا نور کا
ناریوں کا دور تھا دل جل رہا تھا نور کا
تم کو دیکھا ہوگیا ٹھنڈا کلیجا نور کا
نسخ ادیاں کرکے خود قبضہ بٹھایا نور کا
تاجور نے کرلیا کچا علاقہ نور کا
جو گدا دیکھو لئے جاتا ہے توڑا نور کا
نور کی سرکار سے کیا اس میں توڑا نور کا
بھیک لے سرکار سے لاجلد کا سہ نور کا
ماہ نوطیبہ میں بٹتا ہے مہینہ نور کا
دیکھ ان کے ہوتے نازیبا ہے دعویٰ نور کا
مہر لکھ دے یاں کے ذروں کو مچلکہ نور کا
یاں بھی داغ سجدہ طیبہ ہے تمغا نور کا
اے قمر کیا تیرے ہی ماتھے ہے ٹپکا نور کا
شمع ساں ایک ایک پروانہ ہے اس بانور کا
نور حق سے لو لگائے دل میں رشتہ نورکا
انجمن والے ہیں انجم بزم حلقہ نور کا
چاند پرتاروں کی جھرمٹ سے ہے ہالہ نور کا
تیری نسل پاک میں ہے بچہ بچہ نور کا
تو ہے عین نور تیرا سب گھرانا نور کا
نور کی سرکار سے پایا دو شالہ نور کا
ہو مبارک تم کو ذوالنورین جوڑا نور کا
کس کے پردے نے کیا آئینہ اندھا نور کا
مانگتا پھرتا ہے آنکھیں ہر نگینہ نور کا
اب کہاں وہ تابشیں کیسا وہ تڑکا نور کا
مہر نے چھپ کرکیا خاصہ دھندلکا نور کا
قبر انور کہئے یا قصر معلی نور کا
چرخ اطلس یا کوئی سادہ سا قبہ نور کا
آنکھ مل سکتی نہیں در پر ہے پہرا نور کا
تاب ہے بے حکم پر مارے پرندہ نور کا
نزع میں لوٹے گا خاک در پہ شیدا نور کا
مرکے اوڑھے گی عروس جاں دوپٹہ نور کا
تاب مہر حشر سے چونکے نہ کشتہ نور کا
بوندیں رحمت کی دینے آئیں چھینٹا نور کا
وضع واضع میں تری صورت ہے معنی نور کا
یوں مجازا چاہیں جس کو کہہ دیں کلمہ نور کا
انبیاء اجزاہیں تو بالکل ہے جملہ نور کا
بھیک تیرے نام کی ہے استعارہ نور کا
سرمگیں آنکھیں حریم حق کے وہ مشکیں غزال
ہے فضائے لامکاں تک جن کارمنا نور کا
تاب حسن گرم سے کھل جائینگے دل کے کنول
نو بہاریں لائیں گے گرمی کا جھلکا نور کا
ذرے مہر قدس تک تیرے توسط سے گئے
حد اوسط نے کیا صغریٰ کو کبریٰ نور کا
سبزہ گردوں جھکا تھا بہر مایوس براق
پھر نہ سیدھا ہوسکا کھایا ہو کوڑا نور کا
تاب سم سے چوندھیا کر چاند انہیں قدموں پھرا
ہنس کے بجلی نے کہا دیکھا چھلاوا نور کا
دید نقش سم کو نکلی سات پردوں سے نگاہ
پتلیاں بولیں چلو آیا تماشا نور کا
عکس سم نے چاند سورج کو لگائے چار چاند
پڑگیا سیم و زر گردوں پہ سکہ نور کا
چاند جھک جاتا جدھر انگلی اٹھاتے مہد میں
کیا ہی چلتا تھا اشاروں پر کھلونا نور کا
ایک سینہ تک مشابہ اک وہاں سے پاؤں تک
حسن سبطین ان کے جاموں میں ہے نیما نور کا
صاف شکل پاک ہے دونوں کے ملنے سے عیاں
خط تو ام میں لکھا ہے یہ دو ورقہ نور کا
ک گیسو ہ دہن ی ابرو آنکھیں ع ص
کھیعص ان کا ہے چہرہ نور کا
اے رضا# یہ احمد نوری کا فیض نور ہے
ہوگئی میری غزل بڑھ کر قصیدہ نور کا
رباعیات
آتے رہے انبیاء کما قیل لھم
والخاتم حقکم کہ خاتم ہوئے تم
یعنی جو ہوا دفتر تنزیل تمام
آخر میں ہوئی مہر کہ اکملت لکم
شب لحیہ و شارب ہے رخ روشن دن
گیسو و شب قدر برات مومن
مژگان کے صفیں چار ہیں دو ابرو ہیں
والفجر کے پہلو میں لیال عشر
الله کی سر تا بقدم شان ہیں یہ
ان سا نہیں انسان وہ انسان ہیں یہ
قرآن تو ایمان بتاتا ہے انہیں
ایمان یہ کہتا ہے مری جان ہیں یہ
بوسہ گہ اصحاب وہ مہر سامی
وہ شانہ چپ میں اس کی عنبر فامی
یہ طرفہ کہ ہے کعبہ جان و دل میں
سنگ اسود نصیب رکن شامی
کعبہ سے اگر تربت شہ فاضل ہے
کیوں بائیں طرف اس کے لئے منزل ہے
اس فکر میں جو دل کی طرف دھیان گیا
سمجھا کہ وہ جسم ہے یہ مرقد دل ہے
تم جو چاہو تو قسمت کی مصیبت ٹل جائے
کیوں کر کہوں ساعت سے قیامت ٹل جائے
لله اٹھاؤ رخ روشن سے نقاب
مولیٰ مری آئی ہوئی شامت ٹل جائے
یاں شبہ شبیہ کا گزرنا کیسا
بے مثل کی تمثال سنورنا کیسا
ان کا متعلق ہے ترقی یہ مدام
تصویر کا پھر کہئے اترنا کیسا
یہ شہ کی تواضع کا تقاضا ہی نہیں
تصویر کھنچے ان کو گوارا ہی نہیں
معنی ہیں یہ مانی کہ کرم کیا مانے
کھینچنا تو یہاں کسی سے ٹھہرا ہی نہیں
بسم الله الرحمن الرحیم
الا یا ایھا الساقی ادر کاسا وناولھا
کہ بر یاد شہ کوثر نہا سازیم محفلہا
بلا بارید حب شیخ نجدی بر وہابیہ
کہ عشق آسان نمود اول ولے افتاد مشکلہا
وہابی گرچہ اخفا میکند بغض نبی لیکن
نہاں کے ماند آن رازے کرو سازند محفلہا
توہب گاہ ملک ہند اقامت رانمی شاید
جرس فریادی دارد کہ بر بند ید محملہا
صلائے مجلس در گوش آمد ہیں بیا بشنو
جرس مستانہ میگوید کہ بر بندید محملہا
مگر داں روازیں محفل رو ارباب سنت رو
کہ سالک بے خبر بنووز راہ و رسم منزلہا
دریں جلوت بیا از راہ خلوت تا خدا یابی
متی ما تلق من تھوی دع الدننیا و امہلہا
دلم قربانم اے دود چراغ محفل مولد
زتاب جعد مشکینت چہ خوں افتادو ردلہا
غریق بحر عشق احمدیم از فرحت مولد
کجا دانند حال ماسبکساران سا حلہا
رضاء مست جام عشق ساغر باز میخواہد
الا یا ایھا الساقی ادرکاساونا ولھا
مژدہ باد اے عاصیو شافع شہ ابرار ہے