زائرو پاس ادب رکھ ہوس جانے دو

زائرو پاس ادب رکھ ہوس جانے دو

 

 

زائرو پاس ادب رکھ ہوس جانے دو

آنکھیں اندھی ہوئی ہیں ان کو ترس جانے دو

سوکھی جاتی ہے امید غرباء کی کھیتی

بوندیاں لکہ ٴ رحمت کی برس جانے دو

پلٹی آتی ہے ابھی وجد میں جان شیریں

نغمہ ٴ قم کی ذرا کانوں میں رس جانے دو

ہم بھی چلتے ہیں ذرا قافلے والو ٹھہرو

گٹھڑیاں تو شہ ٴ امید کی کس جانے دو

دیدگل اور بھی کرتی ہے قیامت دل پر

ہم صفیرو ہمیں پھر سوئے قفس جانے دو

آتش دل بھی تو بھڑکاؤ ادب داں نالو

کون کہتا ہے کہ تم ضبط نفس جانے دو

یوں تن زار کے در پے ہوئے دل کے شعلو

شیوہ خانہ براندازئ خس جانے دو

اے رضا آہ کہ یوں سہل کٹیں جرم کے سال

دو گھڑی کی بھی عبادت تو برس جانے دو

Sharing Is Caring:

Leave a Comment